اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
داڑھی کی شرعی حیثیت
داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے، واجب ہے یا سنت؟ اور داڑھی منڈوانا جائز ہے یا مکروہ یا حرام؟ جمہور محدثین ومحققین وفقہاء اور علماء کرام نیز چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک، امام احمد بن حنبل) داڑھی کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔ عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کے تقریباً تمام مکاتب فکر قرآن وحدیث کی روشنی میں وجوب کے ہی قائل ہیں۔
میں نے اس موضوع پر عربی واردو زبان کی متعدد کتابوں میں محدثین وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا ،سب نے یہی اعتراف کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم ) دیا ہے اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے اِلّایہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے ارشاد یا عمل یا صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہو کہ آپ ا کا حکم (امر) وجوب کے لئے نہیں بلکہ صرف تاکید کے لئے ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے احوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لئے ہی ہے، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا ہی فیصلہ فرمایا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلات کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی عربی کتاب"وجوب اعفاء اللحےۃ" کا مطالعہ کریں جو سعودی عرب کے ادارۃ البحوث العلميۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد سے شیخ عبد العزیز بن باز ؒ کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔
اگر داڑھی کے صرف سنت ہونے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ عام سنت نہیں ہوگی بلکہ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اشد التاکید ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار بھی ہے اور تمام انبیاء کی سنت بھی ہے، نیز فطرت انسانی بھی ہے اور فطرت انسانی کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الروم آیت ۳۰ میں ارشاد فرمایا ہے۔ بر صغیر میں علم حدیث کی اہم وعظیم شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ ۱/۱۵۲ میں تحریر کیا ہے کہ داڑھی کاٹنا اللہ کی تخلیق اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔۔۔۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ نبی اکرم انے داڑھی کاٹنے کو مشرکین اور مجوسیوں کا طریقہ قرار دیا ہے اور آپ انے داڑھی کاٹنے والوں کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
آئیے اولاً داڑھی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں:حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔(بخاری/ باب تقلیم الاظفار ، مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجوس (آگ کی پرستش کرنے والے) کا ذکر کیا گیا تو آپ انے فرمایا: یہ لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو مونڈتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کیا کرو۔(صحیح ابن حبان ۸/۴۰۸)
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم احکم الحاکمین اللہ جل شانہ کی طرف سے ہے۔ اَمَرَ کا لفظ بھی کتابوں میں آیا ہے، یعنی نبی اکرم انے مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔مسلم/ باب خصال الفطرۃ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرک لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو کاٹتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو، اورداڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔(رواہ البزاز بسند حسن)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس خصلتیں فطرت میں سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھو ں کو کاٹنا اور دوسری خصلت داڑھی کو بڑھانا ہے۔۔۔۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ) یعنی داڑھی رکھنا فطرتِ انسانی اور اسلامی شعار ہے، نیز یہ تمام انبیاء کی سنت ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری ۱۰/۳۳۹ میں اور علامہ جلال الدین سیوطی نے تنویر الحوالک شرح موطا الامام مالک ۲/۲۱۹ میں فطرت کی تشریح کے تحت تحریر کیا ہے۔
رسول اللہ انے جب مختلف ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط لکھے، تو ان میں سے ایک خط کسریٰ شاہ فارس کے نام بھی لکھا۔ اُس کے پاس جب نامۂ مبارک پہونچا تو اس نے اس کو پھاڑ دیا اور یمن کے گورنر کو لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو جو اس شخص کو لے کر آئیں جس نے مجھے یہ خط تحریر کیا ہے۔ چنانچہ یمن کے گورنر نے شاہ فارس کسریٰ کے حکم سے دو فوجیوں کو رسول اللہ اکے پاس بھیجا۔ وہ دونوں رسول اللہ اکے پاس آئے، ان کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آپ انے ان دونوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا، پھر ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تم دونوں کے لئے عذاب ہے، کس نے تم کو اس کا حکم دیا ہے؟ دونوں نے کہا کہ ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۴/۲۷۰ ، تاریخ ابن جریر ۳/۹۱۔۹۰، کتاب الوفاء باحوال المصطفیٰ للحافظ ابن الجوزی) اس واقعہ کو مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (حیاۃ الصحابہ /ج ۱ ص ۱۱۵)میں مختلف سندوں کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
مجوسیوں میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی داڑھی مونڈی ہوئی تھی اور اپنی مونچھ بڑھائی ہوئی تھی۔ آپ انے فرمایا : یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارا دین ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ہم مونچھیں کاٹتے ہیں اور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔روی ابن ابی شیبہ ۸/۳۷۹
حضور اکرم کی داڑھی کا تذکرہ:سید الانبیاء والمرسلین وخاتم الانبیاء وخیر البریہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیشہ داڑھی رکھتے تھے، جیساکہ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک میں بہت زیادہ بال تھے۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شبیہ صلی اللہ علیہ وسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ (رواہ الترمذی فی الشمائل والبیہقی فی شعب الایمان) حضرت براءسے انہیں الفاظ کے ساتھ (نسائی ۵۲۳۲)میں روایت مذکور ہے۔ حضرت علیؓ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (مسند احمد ۲/۱۰۲) میں روایت مذکور ہے۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔(مسند احمد ۱/۱۲۷)
حضرت عائشہ ، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت ابو ایوب انصاری اور دیگر صحابہ کرام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وضو کے وقت داڑھی میں خلال کرنے کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
غرضیکہ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے ، اُن الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی اور زیادہ بالوں والی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وضو کے وقت داڑھی میں خلال بھی کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اسمیں مہندی بھی لگاتے تھے۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی داڑھی مبارک کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ان کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ کسی بھی صحابی سے داڑھی کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے۔
داڑھی کی مقدار:نبی اکرم اکی واضح تعلیمات کی بناء پر جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کرام داڑھی کے وجوب کے تو قائل ہیں، البتہ یہ داڑھی کتنی رکھی جائے اور کیا داڑھی کی حد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات میں داڑھی کی حد کے متعلق خاص وضاحت نہیں ملتی ہے۔ ہاں ترمذی(کتاب الادب / باب ما جاء فی الاخذ من اللحےۃ ) میں ایک روایت ہے جو سند کے اعتبار سے یقیناًکمزور ہے، اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ا اپنی داڑھی مبارک کے طول وعرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے۔ نیز بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرسے ایک مشت کے بعد اپنی داڑھی کا کاٹنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عمر کا عمل ذکر فرمایا ہے۔بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵
غرضیکہ داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں تابعین،تبع تابعین اور اس کے بعد کے زمانے میں علماء کرام کی چند آراء ملتی ہیں، البتہ ایک مشت سے کم رکھنے کا جواز کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا کسی معتبر محدث یا فقیہ سے کہیں نہیں ملتا۔
داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں فقہاء کے اقوال:داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، یعنی کسی طرف سے کوئی بال نہ کاٹا جائے۔ امام شافعی کے دواقوال میں سے ایک قول، جس کو امام نووی نے راجح قرار دیا ہے، نیز امام احمد بن حنبل ؒ کی دو رائے میں سے ایک رائے یہی ہے۔
داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، البتہ حج یا عمرہ سے فراغت کے بعد داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب سے تھوڑا کاٹ لیا جائے۔ امام شافعی کے دواقوال میں سے دوسرا قول یہی ہے، جس کو حافظ ابن حجر نے راجح قرار دیا ہے۔
داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب جو بال بکھرے ہوئے ہیں، ایک قبضہ (مٹھی) کی شرط کے بغیر ان کو کاٹ لیا جائے۔ امام مالک کی رائے یہی ہے جس کو قاضی عیاض نے راجح قرار دیا ہے۔
ایک قبضہ (مٹھی) کے بعدداڑھی کے بال کاٹ لئے جائیں۔ امام ابو حنیفہ کی رائے یہی ہے کہ ایک مشت ہی داڑھی رکھنا سنت ہے اور ایک مشت (قبضہ) سے کم داڑھی کے بال کاٹنا جائز نہیں ہیں۔ اسی رائے کو تمام علماء احناف نے راجح قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مشہور ومعروف شاگرد امام محمد نے اپنی تصنیف کتاب الآثار میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے روایت کیا امام ابوحنیفہ سے اور وہ روایت کرتے ہیں ہیثم سے اور وہ حضرت عبداللہ ابن عمر سے کہ وہ یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمر اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھر سے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی تو وہ اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ امام محمد نے فرمایا کہ ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ کا بھی ہے۔۔۔ چنانچہ فقہ حنفی کی تمام مشہور ومعروف کتابوں میں یہی تحریر ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت ہے اور اگر داڑھی ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جائز نہیں ہے۔
داڑھی کے متعلق نبی اکرم اکی واضح تعلیمات سب سے زیادہ مستند ومعتبر سندوں کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے واسطے سے ہی امت مسلمہ کو پہونچی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرماتے تھے، نیز وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بڑے فدائی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں بہت زیادہ پیش پیش رہنے والے تھے، ان کے عمل کو بطور معیار پیش کیا جاتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عمرکے داڑھی سے متعلق ان کے عمل کو ترازو بناکر پیش کیا ہے کہ وہ حج وعمرہ سے فارغ ہونے کے موقع پر احرام کھولتے تو داڑھی کو مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵
حافظ ابن حجر شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ داڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتر دیا جائے، پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ داڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ میں (یعنی حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر) اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ رواہ ابواداؤد باسناد صحیح ۴/۴۱۹۸
داڑھی کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمرکے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہیں، ان کا عمل بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹنے کا مذکور ہے۔ نصب الرایہ ج ۲ ص ۴۵۸
امام غزالی نے اپنی کتاب (الاحیاء ۱ /۱۴۳) میں تحریرکیا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کے کاٹنے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کے بال کاٹ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمراور تابعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ علامہ ابن سیرین نے ایک ہی مشت داڑھی رکھنے کو مستحسن قرار دیا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب (اشعۃ اللمعات ج۱ ص ۲۲۸)میں لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار تک اس کا بڑھانا واجب ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب (شرح العمدۃ ۱ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ اعفاء اللحیہ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑنے کے ہیں، لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹتا ہے یا دائیں وبائیں جانب بکھرے ہوئے بال کو کاٹتا ہے تو وہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا حضرت عبد اللہ بن عمر سے ثابت ہے۔
صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
نوٹ: عصر حاضر کے بعض علماء کرام نے ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، البتہ یہ علماء کرام بھی داڑھی کو کم از کم ایک مشت ہی رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ایک شبہ کا ازالہ:بعض حضرات کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں داڑھی کا حکم کہا ں ہے؟ میں ان حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں یہ کہاں ہے کہ جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے اور قرآن میں یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ اکے فرمان کو مت مانو، بلکہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار جگہوں پر رسول اکرم کی ااطاعت کاحکم دیا ہے، اور رسول اللہ ا کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (سورۂ النساء ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ا کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے، اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ رسول اللہ اکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس موضوع پر تفصیل کے لئے میرے مضمون حجيۃ حدیث کو پڑھیں:میں نے حجیت حدیث کے مضمون میں دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ احادیث شریفہ کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا ناممکن ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ النحل آیت ۴۴ اور ۶۴ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم اہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ا پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ اامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں ۔
پھر بھی ان حضرات کے اطمینان کے لئے ذکر ہے کہ داڑھی کاتذکرہ قرآن کریم (سورۂ طہ ۹۴) میں آیا ہے: يا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيتيحضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی کو نہ پکڑو۔
داڑھی کو خضاب یا مھندی سے رنگنا:اگر بڑھاپے کی وجہ سے داڑھی یا سر کے بال سفید ہوگئے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں علماء کرام کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ بال کو خالص کالے رنگ سے رنگنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ا س میں تخلیق کو بدلنا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے جوانی میں ہی کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال سفید ہوگئے ہوں تو جوانی میں بالوں کو خالص کالے رنگ سے رنگنے کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے، لیکن بچنے میں خیر ہے۔ البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا سیاہی مائل کسی رنگ سے بالوں کا رنگنا سب کے لئے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
حضرت ابو قحافہ کو فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ ان کے بال بالکل سفید تھے، تو نبی اکرم ا نے فرمایا : ان کے بالوں کی سفیدی کو بدلو، البتہ کالے رنگ سے بچو۔ مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالوں کی سفیدی کو بدلنے کے لئے حناء اور کتم کا استعمال کیا کرو۔ (ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) حناء مہندی کو کہتے ہیں جبکہ کتم بھی مہندی کی طرح ہی ہوتا ہے لیکن بالوں پر استعمال کے بعد اس کا رنگ سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کو زرد رنگ سے رنگتے تھے۔ ابو داؤد / باب فی المصبوغ بالصفرۃ
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ خالص کالے رنگ سے اپنے بالوں کو رنگیں گے، ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔ ابو داؤد، نسائی
خلاصۂ کلام:میرے عزیزو! داڑھی رکھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، آپ کی اتباع اور آپ سے محبت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو حکم دیا ہے اس سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی پر مختلف تبصرے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے لیکن داڑھی پر غلط تبصرے کرنا یا داڑھی کا مزاق اڑانا کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والا بنائے اور داڑھی رکھنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
میں نے اس موضوع پر عربی واردو زبان کی متعدد کتابوں میں محدثین وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا ،سب نے یہی اعتراف کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم ) دیا ہے اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے اِلّایہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے ارشاد یا عمل یا صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہو کہ آپ ا کا حکم (امر) وجوب کے لئے نہیں بلکہ صرف تاکید کے لئے ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے احوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لئے ہی ہے، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا ہی فیصلہ فرمایا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلات کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی عربی کتاب"وجوب اعفاء اللحےۃ" کا مطالعہ کریں جو سعودی عرب کے ادارۃ البحوث العلميۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد سے شیخ عبد العزیز بن باز ؒ کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔
اگر داڑھی کے صرف سنت ہونے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ عام سنت نہیں ہوگی بلکہ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اشد التاکید ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار بھی ہے اور تمام انبیاء کی سنت بھی ہے، نیز فطرت انسانی بھی ہے اور فطرت انسانی کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الروم آیت ۳۰ میں ارشاد فرمایا ہے۔ بر صغیر میں علم حدیث کی اہم وعظیم شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ ۱/۱۵۲ میں تحریر کیا ہے کہ داڑھی کاٹنا اللہ کی تخلیق اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔۔۔۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ نبی اکرم انے داڑھی کاٹنے کو مشرکین اور مجوسیوں کا طریقہ قرار دیا ہے اور آپ انے داڑھی کاٹنے والوں کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
آئیے اولاً داڑھی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں:حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔(بخاری/ باب تقلیم الاظفار ، مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجوس (آگ کی پرستش کرنے والے) کا ذکر کیا گیا تو آپ انے فرمایا: یہ لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو مونڈتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کیا کرو۔(صحیح ابن حبان ۸/۴۰۸)
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم احکم الحاکمین اللہ جل شانہ کی طرف سے ہے۔ اَمَرَ کا لفظ بھی کتابوں میں آیا ہے، یعنی نبی اکرم انے مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔مسلم/ باب خصال الفطرۃ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرک لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو کاٹتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو، اورداڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔(رواہ البزاز بسند حسن)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس خصلتیں فطرت میں سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھو ں کو کاٹنا اور دوسری خصلت داڑھی کو بڑھانا ہے۔۔۔۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ) یعنی داڑھی رکھنا فطرتِ انسانی اور اسلامی شعار ہے، نیز یہ تمام انبیاء کی سنت ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری ۱۰/۳۳۹ میں اور علامہ جلال الدین سیوطی نے تنویر الحوالک شرح موطا الامام مالک ۲/۲۱۹ میں فطرت کی تشریح کے تحت تحریر کیا ہے۔
رسول اللہ انے جب مختلف ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط لکھے، تو ان میں سے ایک خط کسریٰ شاہ فارس کے نام بھی لکھا۔ اُس کے پاس جب نامۂ مبارک پہونچا تو اس نے اس کو پھاڑ دیا اور یمن کے گورنر کو لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو جو اس شخص کو لے کر آئیں جس نے مجھے یہ خط تحریر کیا ہے۔ چنانچہ یمن کے گورنر نے شاہ فارس کسریٰ کے حکم سے دو فوجیوں کو رسول اللہ اکے پاس بھیجا۔ وہ دونوں رسول اللہ اکے پاس آئے، ان کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آپ انے ان دونوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا، پھر ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تم دونوں کے لئے عذاب ہے، کس نے تم کو اس کا حکم دیا ہے؟ دونوں نے کہا کہ ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۴/۲۷۰ ، تاریخ ابن جریر ۳/۹۱۔۹۰، کتاب الوفاء باحوال المصطفیٰ للحافظ ابن الجوزی) اس واقعہ کو مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (حیاۃ الصحابہ /ج ۱ ص ۱۱۵)میں مختلف سندوں کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
مجوسیوں میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی داڑھی مونڈی ہوئی تھی اور اپنی مونچھ بڑھائی ہوئی تھی۔ آپ انے فرمایا : یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارا دین ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ہم مونچھیں کاٹتے ہیں اور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔روی ابن ابی شیبہ ۸/۳۷۹
حضور اکرم کی داڑھی کا تذکرہ:سید الانبیاء والمرسلین وخاتم الانبیاء وخیر البریہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیشہ داڑھی رکھتے تھے، جیساکہ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک میں بہت زیادہ بال تھے۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شبیہ صلی اللہ علیہ وسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ (رواہ الترمذی فی الشمائل والبیہقی فی شعب الایمان) حضرت براءسے انہیں الفاظ کے ساتھ (نسائی ۵۲۳۲)میں روایت مذکور ہے۔ حضرت علیؓ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (مسند احمد ۲/۱۰۲) میں روایت مذکور ہے۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔(مسند احمد ۱/۱۲۷)
حضرت عائشہ ، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت ابو ایوب انصاری اور دیگر صحابہ کرام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وضو کے وقت داڑھی میں خلال کرنے کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
غرضیکہ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے ، اُن الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی اور زیادہ بالوں والی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وضو کے وقت داڑھی میں خلال بھی کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اسمیں مہندی بھی لگاتے تھے۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی داڑھی مبارک کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ان کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ کسی بھی صحابی سے داڑھی کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے۔
داڑھی کی مقدار:نبی اکرم اکی واضح تعلیمات کی بناء پر جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کرام داڑھی کے وجوب کے تو قائل ہیں، البتہ یہ داڑھی کتنی رکھی جائے اور کیا داڑھی کی حد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات میں داڑھی کی حد کے متعلق خاص وضاحت نہیں ملتی ہے۔ ہاں ترمذی(کتاب الادب / باب ما جاء فی الاخذ من اللحےۃ ) میں ایک روایت ہے جو سند کے اعتبار سے یقیناًکمزور ہے، اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ا اپنی داڑھی مبارک کے طول وعرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے۔ نیز بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرسے ایک مشت کے بعد اپنی داڑھی کا کاٹنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عمر کا عمل ذکر فرمایا ہے۔بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵
غرضیکہ داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں تابعین،تبع تابعین اور اس کے بعد کے زمانے میں علماء کرام کی چند آراء ملتی ہیں، البتہ ایک مشت سے کم رکھنے کا جواز کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا کسی معتبر محدث یا فقیہ سے کہیں نہیں ملتا۔
داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں فقہاء کے اقوال:داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، یعنی کسی طرف سے کوئی بال نہ کاٹا جائے۔ امام شافعی کے دواقوال میں سے ایک قول، جس کو امام نووی نے راجح قرار دیا ہے، نیز امام احمد بن حنبل ؒ کی دو رائے میں سے ایک رائے یہی ہے۔
داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، البتہ حج یا عمرہ سے فراغت کے بعد داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب سے تھوڑا کاٹ لیا جائے۔ امام شافعی کے دواقوال میں سے دوسرا قول یہی ہے، جس کو حافظ ابن حجر نے راجح قرار دیا ہے۔
داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب جو بال بکھرے ہوئے ہیں، ایک قبضہ (مٹھی) کی شرط کے بغیر ان کو کاٹ لیا جائے۔ امام مالک کی رائے یہی ہے جس کو قاضی عیاض نے راجح قرار دیا ہے۔
ایک قبضہ (مٹھی) کے بعدداڑھی کے بال کاٹ لئے جائیں۔ امام ابو حنیفہ کی رائے یہی ہے کہ ایک مشت ہی داڑھی رکھنا سنت ہے اور ایک مشت (قبضہ) سے کم داڑھی کے بال کاٹنا جائز نہیں ہیں۔ اسی رائے کو تمام علماء احناف نے راجح قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مشہور ومعروف شاگرد امام محمد نے اپنی تصنیف کتاب الآثار میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے روایت کیا امام ابوحنیفہ سے اور وہ روایت کرتے ہیں ہیثم سے اور وہ حضرت عبداللہ ابن عمر سے کہ وہ یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمر اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھر سے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی تو وہ اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ امام محمد نے فرمایا کہ ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ کا بھی ہے۔۔۔ چنانچہ فقہ حنفی کی تمام مشہور ومعروف کتابوں میں یہی تحریر ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت ہے اور اگر داڑھی ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جائز نہیں ہے۔
داڑھی کے متعلق نبی اکرم اکی واضح تعلیمات سب سے زیادہ مستند ومعتبر سندوں کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے واسطے سے ہی امت مسلمہ کو پہونچی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرماتے تھے، نیز وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بڑے فدائی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں بہت زیادہ پیش پیش رہنے والے تھے، ان کے عمل کو بطور معیار پیش کیا جاتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عمرکے داڑھی سے متعلق ان کے عمل کو ترازو بناکر پیش کیا ہے کہ وہ حج وعمرہ سے فارغ ہونے کے موقع پر احرام کھولتے تو داڑھی کو مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵
حافظ ابن حجر شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ داڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتر دیا جائے، پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ داڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ میں (یعنی حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر) اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ رواہ ابواداؤد باسناد صحیح ۴/۴۱۹۸
داڑھی کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمرکے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہیں، ان کا عمل بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹنے کا مذکور ہے۔ نصب الرایہ ج ۲ ص ۴۵۸
امام غزالی نے اپنی کتاب (الاحیاء ۱ /۱۴۳) میں تحریرکیا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کے کاٹنے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کے بال کاٹ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمراور تابعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ علامہ ابن سیرین نے ایک ہی مشت داڑھی رکھنے کو مستحسن قرار دیا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب (اشعۃ اللمعات ج۱ ص ۲۲۸)میں لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار تک اس کا بڑھانا واجب ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب (شرح العمدۃ ۱ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ اعفاء اللحیہ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑنے کے ہیں، لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹتا ہے یا دائیں وبائیں جانب بکھرے ہوئے بال کو کاٹتا ہے تو وہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا حضرت عبد اللہ بن عمر سے ثابت ہے۔
صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
نوٹ: عصر حاضر کے بعض علماء کرام نے ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، البتہ یہ علماء کرام بھی داڑھی کو کم از کم ایک مشت ہی رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ایک شبہ کا ازالہ:بعض حضرات کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں داڑھی کا حکم کہا ں ہے؟ میں ان حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں یہ کہاں ہے کہ جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے اور قرآن میں یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ اکے فرمان کو مت مانو، بلکہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار جگہوں پر رسول اکرم کی ااطاعت کاحکم دیا ہے، اور رسول اللہ ا کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (سورۂ النساء ۸۰) نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ا کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے، اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ رسول اللہ اکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس موضوع پر تفصیل کے لئے میرے مضمون حجيۃ حدیث کو پڑھیں:میں نے حجیت حدیث کے مضمون میں دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ احادیث شریفہ کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا ناممکن ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ النحل آیت ۴۴ اور ۶۴ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم اہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ا پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ اامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں ۔
پھر بھی ان حضرات کے اطمینان کے لئے ذکر ہے کہ داڑھی کاتذکرہ قرآن کریم (سورۂ طہ ۹۴) میں آیا ہے: يا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيتيحضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی کو نہ پکڑو۔
داڑھی کو خضاب یا مھندی سے رنگنا:اگر بڑھاپے کی وجہ سے داڑھی یا سر کے بال سفید ہوگئے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں علماء کرام کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ بال کو خالص کالے رنگ سے رنگنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ا س میں تخلیق کو بدلنا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے جوانی میں ہی کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال سفید ہوگئے ہوں تو جوانی میں بالوں کو خالص کالے رنگ سے رنگنے کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے، لیکن بچنے میں خیر ہے۔ البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا سیاہی مائل کسی رنگ سے بالوں کا رنگنا سب کے لئے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
حضرت ابو قحافہ کو فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ ان کے بال بالکل سفید تھے، تو نبی اکرم ا نے فرمایا : ان کے بالوں کی سفیدی کو بدلو، البتہ کالے رنگ سے بچو۔ مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالوں کی سفیدی کو بدلنے کے لئے حناء اور کتم کا استعمال کیا کرو۔ (ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) حناء مہندی کو کہتے ہیں جبکہ کتم بھی مہندی کی طرح ہی ہوتا ہے لیکن بالوں پر استعمال کے بعد اس کا رنگ سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کو زرد رنگ سے رنگتے تھے۔ ابو داؤد / باب فی المصبوغ بالصفرۃ
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ خالص کالے رنگ سے اپنے بالوں کو رنگیں گے، ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔ ابو داؤد، نسائی
خلاصۂ کلام:میرے عزیزو! داڑھی رکھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، آپ کی اتباع اور آپ سے محبت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو حکم دیا ہے اس سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی پر مختلف تبصرے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے لیکن داڑھی پر غلط تبصرے کرنا یا داڑھی کا مزاق اڑانا کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والا بنائے اور داڑھی رکھنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
No comments:
Post a Comment