Breaking News
recent

قربانی کے احکام و مسائل

تحریر:عامر عباسی۔
           متخصص جامعہ بنوریہ۔ 


قربانی کے احکام
اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کئے ہیں ایک عید الفطر کا اور دوسرا عید الاضحی کا اور ان کو عبادت قرار دیا جو کہ ہر سال مسلم قوم بڑے جوش جذبے کے ساتھ کرتی ہے۔ عید الاضحی اس وقت منائی جائی ہے جب کہ مسلمانان عالم اسلام ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور ابتدا کی خوشی کو ئی دنیوی خوشی نہیں بلکہ دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہو نا چاہیے ۔اس لئے عید کے موقع پر مسلمان اللہ کے حضور سربسجود ہو کر شکر بجا لاتے ہیں اور بطور شکر کے عید الفطر کے دن صدقہ اور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں ۔تو جب یہ عبادت ہے تو اس کے احکام جاننا بھی ضروری ہوئے تاکہ ہماری محنت اور رقم کہیں ضائع نہ ہو اور شریعت کے احکام کے مطابق ہم اپنی عبادت کو پایۂ تکمیل تک پہنچاسکیں جو کہ ہمارے لیے رضائے خدا وندی کا ذریعہ بنے قربانی کس پر واجب ہے:
(1) جتنے مال پر صدقہ فطر واجب ہو تا ہے اتنے مال پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہو تی ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو تو اس پر قربانی واجب تو نہیں ہے لیکن اگر پھر بھی کر دے تو بہت ثواب ہے۔
ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ:
قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے ہی سے قربانی ادا ہو تی ہے جانور کے زندہ صدقہ کرنے یا اس کی قیمت کو خیرات کرنے سے قربانی اد انہیں ہوتی کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے اور صدقہ خیرات علیحدہ ثواب کا کام ہے ۔اور ظاہر ہے کہ ایک عبادت کے ادا کرنے سے دوسری مستقل عبادت ادا نہیں ہوتی اس لئے صدقہ خیرات کر نے سے قربانی بھی ادا نہیں ہوتی۔ جیسے صدقہ یا خیرات کرنے سے حج یا نماز ادا نہیں ہوتے۔
(2) مسافر جو اڑتالیس میل کی مسافت کے ارادہ سے سفر شروع کر چکا ہو اس پر بھی قربانی واجب نہیں۔
(3) اتنا مال جس پر قربانی واجب ہوتی ہے کسی کی ملکیت میں بقر عید کی بارہ تاریخ کے سورج غروب ہو نے سے پہلے ہی آیا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ۔اگر اس نے اتنے مال کے ملکیت میں آنے سے پہلے قربانی کر دی اور پھر بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے مالدار ہو گیا تو پھر پہلی قربانی ہی کافی ہے ۔اسی طرح کوئی مسافر بارہ تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے گھر آگیا ہو یا کسی جگہ اس نے پندرہ روز کے قیام کا ارادہ کر لیا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہو جا ئے گی۔
(4) قربانی جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے اسی طرح اگر کسی عورت کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے تو عورت پر بھی قربانی واجب ہو گی ۔
(5) جو مسلمان مرد یاعورت اتنے مال کا مالک ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے جب تک اتنا مال اس کی ملکیت میں رہے گا اس پر ہر سال قربانی واجب ہو گی صرف ایک سال قربانی کر دینا کافی نہیں۔
(6) اگر بھائی مشترک کاروبار کرتے ہوں اور ان کا کھانا پینا اخراجات بھی مشترک ہوں تو جو کچھ مال اس مشترک کاروبار سے حاصل ہو گا اس میں سے اگر ہر بھائی کے حصے میں اگر اتنا مال آتا ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے تو ہر بھائی کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہو گی ۔ اور اگر اتنے مال سے کم حصے میں آتا ہے تو کسی کے ذمہ بھی واجب نہیں ۔
قربانی کا وقت:
بقر عید کی دسویں سے لے کر بارھویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک قربانی کا وقت ہے ان دنوں میں جس وقت چاہے قربانی کرے مگر رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں۔ اور سب سے افضل بقر عید کا دن ہے پھر گیارھویں پھر بارھویں تاریخ ہے ۔ شہروں میں بقر عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں اور دیہات میں دسویں کی صبح صادق کے بعد بھی قربانی کر دینا درست ہے۔ شہر میں اگر کسی نے بقر عید کی نمازسے پہلے قربانی کر دی تو اس کو دوبارہ قربانی کر نا ضروری ہے قربانی کا جانور اگر شہر میں ہے تو پھر چاہے قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو نماز عید سے پہلے ذبح کرنا درست نہیں اور اگر قربانی گاؤں میں ہو تو اس کا نماز عید سے پہلے صبح صادق کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور:
بکری،بکرا،بھیڑ، دنبہ، گائے بیل ،بھینس ،بھینسا، اونٹ اور اونٹنی، صرف ان جانوروں کی قربانی جائز ہے مرغی یا مرغے کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔
قربانی کی عمر:
بکرا،بکری ایک سال سے کم اور گائے،بیل، بھینس،بھینسا دوسال سے کم اور اونٹ، اونٹنی پانچ سال سے کم عمر کی جائز نہیں ہے اور بھیڑ ،دنبہ چکتی دار ہو یا بغیر چکتی کے ہو اگر ایسا فربہ (صحت مند) کہ سال بھر کا معلوم ہو تا ہو تو چھ ماہ کا بھی جائز ہے اور اگر ایسا فربہ نہیں تو پھر سال بھر سے کم کا جائز نہیں۔
قربانی میں شراکت:
بکری ،بکرا، بھیڑ ،دنبہ، کو صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے اور گائے ،بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ ،اونٹنی میں سات آدمی تک شریک ہو سکتے ہیں اس سے زیادہ شریک نہیں ہو سکتے اور سات سے کم دو چار چھ جتنے بھی ہوں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ کسی کاحصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب کی نیت یا تو قربانی کرنے کی ہو اگرچہ ان میں بعض کی نیت واجب قربانی کرنے کی ہو اور بعض کی نفلی۔
قربانی کے عیب:
(1) جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا بعد میں ٹوٹ گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہو ں تو جا ئز نہیں ۔
(2) جس جانور کے چھوٹے چھوٹے کان ہوں اس کی قربانی جائز ہے اور اگر ایک یا دونوں کان پیدائشی نہ ہو یا ایک کان پورا کٹا ہوا ہو تو جائز نہیں۔
(3) جس جانور کے دونوں کان تھوڑے تھوڑے کٹے ہوئے ہوں یا کان میں کئی سوراخ ہوں جو جمع کرنے سے تہائی سے زیادہ ہو جا تے ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ اس جانور کی قربانی نہ کرے اسی طرح کان یا دم تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو تو قربانی ناجائز ہے ۔
(4) جو جانور اندھا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی بینائی تہائی سے زیادہ جاتی رہے تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر آنکھ کی نگاہ ترچھی ہو تو قربانی جائز ہے ۔
(5) جس جانور کی ناک کٹی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(6) جس جانور کے دانت بالکل نہ ہو اس کی قربانی ناجائز ہے اور اگر اس قدر باقی ہیں کہ گھاس وغیرہ کھا سکتا ہے تو جا ئز ہے۔
(7) جس جانور کی زبان تہائی سے زیادہ کٹی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(8) مخنث جانور کی قربانی جائز نہیں ۔
(9) خصی جانور کی قربانی درست بلکہ افضل ہے۔
10)) جس جانور کا پاؤں کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(11) جس جانور کے تھن بالکل کٹے ہوئے ہوں یا ایک تھن تھائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر بیماری کی وجہ سے بھیڑ بکری کا ایک تھن یا گائے اور بھینس اور اونٹنی کے دو تھن سوکھ گئے ہوں تو قربانی جائز نہیں، یہی حکم ہے اگر تھن کا سر کٹ گیا ہو تو بھی جائز نہیں ۔اور اگر بیماری کے بغیر دودھ سوکھ گیا ہو تو جائز ہے۔
(12) جو جانور ایسا لنگڑا ہو کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہو چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھ سکتا یا رکھ سکتا ہے مگر اس پر چل نہیں سکتا تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر چوتھا پاؤں ٹیک کر چل سکتا ہے تو جائز ہے۔ ایسے دبلے کمزور جانور کی قربانی ناجائز ہے جس کی ہڈی میں گودا نہ رہا ہو اگر اتنا کمزور نہ ہو تو جائز ہے۔
(13) مجنون جانور اگر چل پھر کر چر سکے اور جس جانور کو خارش ہو اور موٹا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر دونوں اتنے کمزور ہو گئے کہ ان کی ہڈی میں گودا ہی نہ رہا ہو تو پھر جائز نہیں ۔
(14) جو جانور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے بچہ دینے کے قابل نہیں اور جس کو کھانسی ہو اور جس کے بدن پر گرم لوہے سے داغ دیا گیا ہو اور جس کا کان چیراہوا ہو یا اس میں سوراخ ہو بشرطیکہ سوراخ کان کی تہائی سے کم ہو ان کی قربانی جائز ہے ۔
(15) مستحب یہ ہے کہ قربانی کے جانور میں جائز عیبوں میں سے بھی کوئی عیب نہ ہو ۔
(16) اگر قربانی کے جانور کو خریدنے کے بعد کوئی ایسا عیب لگ گیا جس سے قربانی نہیں ہو سکتی تو قربانی کرنے والا اگر غنی ہے جس پر قربانی واجب ہے تو دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر غریب ہے تو اسی کو ذبح کر دے ۔
(17) اگر خریدتے وقت وہ جانور عیب دار تھا تو غریب کے لئے اسی حالت میں اس کی قربانی جائز ہے اور امیر کے لیے اس وقت جائز ہے جب کہ اس کا عیب جاتا رہے مثلاً پہلے بہت کمزور تھا اور لاغر تھا بعد میں موٹا ہو گیا ۔
جاری باقی مسائل اگلے صفحہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

tadrees ul islam

tadrees ul islam

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.