Breaking News
recent

بقیہ۔ قربانی کے احکام و مسائل

بقیہ۔  قربانی کے احکام و مسائل
 تحریر: مفتی عامر عباسی     متخصص جامعہ بنوریہ

 مسائل ذبح:
(1) اگر ذبح کرتے وقت گرنے یا تڑپنے سے کوئی ایسا عیب لگ گیا جو قربانی کو مانع ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
(2) حاملہ جانور کی قربانی درست ہے البتہ جو جانور بچہ دینے کے قریب ہو اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔
(3) اگر قربانی کے جانور کا بچہ پیدا ہو جا ئے تو اس بچہ کو زندہ ہی صدقہ کر دینا مستحب ہے اور اگر ذبح کر دیا تو اس کا گوشت نہ کھائے بلکہ صدقہ کر دے اور ذبح کرنے سے اس کی قیمت میں جو زندہ ہونے کی صورت میں تھی اتنی رقم بھی صدقہ کر دے اور اگر گوشت کھا لیا تو اس کی قیمت بھی صدقہ کر دے اور اگر اس بچہ کو اس خیال سے رکھ لیا کہ آئندہ ہ سال قربانی کروں گا تو ناجائز ہے۔
(۴) مستحب ہے قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر خود ذبح نہ کر سکے تو دوسرے کو حکم دے اور خود ذبح کے وقت حاضر رہے۔
فائدہ: اگر وہاں کوئی غیر محرم نہ ہو تو عورت کو بھی اپنی قربانی کے پاس کھڑا ہو نا مستحب ہے ورنہ پردہ ضروری ہے۔
(۵) قربانی کا گوشت اور کھال وغیرہ قصاب کو اجرت میں دینا منع ہے۔
(۶) قربانی کرنے والے نے ذبح کرنے والے کے ساتھ چھری ہاتھ میں پکڑی اب ذبح کرتے وقت ان دونوں میں سے اگر ایک نے بھی دانستہ بسم اللہ چھوڑ دی تو جانور حرام ہو جائے گا۔
مستحب یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو قربانی سے پہلے چند دن گھر میں باندھ کہ رکھے اور اس کو جھول پہنائے اور اس کے گلے میں قلادہ یعنی چمڑا وغیرا کا کوئی ٹکڑا لٹکائے اور ذبح کرتے وقت اسے آرام اور نرمی کے ساتھ لٹائے چھری کو پہلے اچھی طرح تیز کرے اور ذبح کے بعد جب جانور اچھی طرح ٹھنڈا ہو جا ئے تو اس کی کھال اتارے اس سے پہلے کھال اتارنا مکروہ ہے۔ اسی طرح جانور کو لٹا کر اس کے سامنے چھری تیز کرنا اور کوئی بے ضرورت تکلیف دینا مکروہ ہے اور روح نکلنے سے پہلے حرام مغز تک چھری پہنچا کر سر الگ کرنا مکروہ ہے۔
(۷) ذبح کرنے والے کو ذبح کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک بغیر عذر کے مکروہ ہے۔
(۸) مرتد، زندیق، رافضی اورقادیانی کاذبیحہ حرام ہے ۔ان سے ذبحہ نہ کرائیں نہ قربانی کے موقع پر نہ کسی اور وقت۔قربانی کا گوشت اور کھال :
قربانی کے گوشت کا خود کھانا اور رشتہ داروں اور مالداروں میں تقسیم کرنا اور فقیروں محتاجوں کو خیرات کرنا سب جائز ہے،بہتر یہ ہے کہ تہائی گوشت سے کم خیرات نہ کرے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم خیرات کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں۔ البتہ منت اور نذر کی قربانی کا سب گوشت خیرات کر نا ضروری ہے اس میں سے نہ خود کھا سکتا ہے نہ امیروں کو دے سکتا ہے۔
قربانی کا گوشت بیچنا مکروہ ہے اس طرح سری پائے اور اس کی چربی کا بیچنا حلال نہیں اگر کسی نے ان چیزوں کو بیچ دیا تو ان کی قیمت صدقہ کرے۔قربانی کی کھال کا بعینہ ڈول ،مصلی وغیرہ بنا کر خود استعمال کرنا بھی جائز ہے اور کسی امیر کو دے دینا بھی جائز ہے اور اگر اس کھال کو ایسی چیز سے تعبیر کر لیاکہ بعینہ اس چیز کے وجود سے کچھ مدت تک نفع حاصل ہو سکتا ہے جیسے مشک ۔چھلنی۔ جائے نماز، کپڑا وغیرا تو یہ بھی جائز ہے لیکن اگر کسی ایسی چیز کے ساتھ تبدیل کر دیا جس کے وجود سے بعینہ نفع حاصل نہیں ہو سکتا یا اس کو روپے پیسے کے ساتھ فروخت کر دیا تو اب اس کی قیمت کو خود استعمال نہیں کر سکتا نہ کسی امیرکو دے سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کر دیا جا ئے۔
فائدہ: مدارس اسلامیہ کے طلبہ اس صدقہ کے بہترین مصرف ہیں اس میں صدقے کا ثواب بھی ہے اور علم دین کے احیاء کا بھی۔ مگر کسی خدمت اور معاوضہ میں دینا اس کا جائز نہیں اسی طرح قربانی کے جانور کی رسی وغیرہ سب صدقہ کر دے۔
تنبیہ:
بعض لوگ چرم قربانی کی قیمت بیوہ عورتوں کو دے دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے پاس سونا چاندی کا زیور یا نقدی تو بقدر نصاب نہیں ہے ۔اس طرح یہ بھی دستور ہے کہ اس کی قیمت کو بہنوں وغیرہ کا حق سمجھا جا تا ہے اور مالدار بہنوں بیٹیوں کو بھی دے دیتے ہیں یہ درست نہیں البتہ بیوہ عورت یا بہن اگر غریب ہو تو اس کو دے سکتے ہیں۔
قربانی کی قضائ:
( 1) اگر کسی شخص نے پچھلے سالوں کی واجب قربانی ادا نہ کی ہو تو اس کو ہر سال کی قربانی کے عوض قربانی کی قیمت کا صدقہ میں دینا واجب ہے ۔قربانی کے ایام گزرنے کے بعد قربانی نہیں کر سکتا۔
(2) اگر کوئی شخص قربانی کے دنوں میں مالدار تھا لیکن اس نے قربانی نہیں کی پھر ان دنوں کے گزرنے کے بعد وہ شخص غریب ہو گیا اب اگر اس نے قربانی کا جانور خریدا تھا تو اس کو صدقہ کر دے ورنہ اتنی رقم خیرات کرے جس سے قربانی ہو سکتی ہے۔
(3)اگر کوئی شخص مالدار ہو اور اس نے قربانی نہ کی ہو اور نہ ہی قربانی کے دن گزرنے کے بعد اتنی رقم قربانی کے عوض خیرات کی ہو جس سے قربانی ہو سکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ وصیت کرے کہ اس کی طرف سے اس کا وارث قربانی کی قیمت صدقہ کرے۔
(4) اگر قربانی کے لئے جانور خریدا اور قربانی کے دنوں میں ذبح نہ کیا تو اب اس قربانی کی قضاء کے ارادہ سے اس کو آئندہ سال ذبح کرنا جائز نہیں بلکہ اس جانور کو زندہ صدقہ کرناواجب ہے۔ اگر ذبح کر لیا تو اس کا گوشت کھانا اس کے لیے جائز نہیں بلکہ ذبح کرنے سے جانور کی قیمت میں جو نقصان ہوا وہ رقم اور اس کا تمام گوشت پوست خیرات کر دے۔
عشرہ ذوالحجہ کے متفرق مسائل:
(1) جو آدمی قربانی کا ارداہ رکھتاہو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال، ناخن کٹانے اور حجامت بنوانے سے دسویں ذوالحجہ تک رُکا رہے ۔
(2) بقر عید کی پہلی تاریخ سے لے کر نو تاریخ تک ہر دن کا روزہ رکھنا ایک ایک دن کا روزہ ثواب میں سال بھر کے روزوں کے برابر ہے ۔ نویں تاریخ یعنی عرفہ کے دن کا روزہ ثواب میں دو سال کے روزوں کے برابر ہے پھر دسویں سے لے کے تیرھویں تاریخ تک روزہ رکھنا حرام ہے۔
تکبیر تشریق :
تکبیر تشریق ناویں ذوالحجہ کی نماز فجر کے بعد تیرہویں تاریخ کی عصر کے نماز کے بعد تک ہر فرض عین نماز کا سلام پھیرتے ہی ایک مرتبہ بلند آواز سے کہنا واجب ہے البتہ عورتیں آہستہ آہستہ آواز میں کہیں۔
تنبیہ: بہت سے لوگ غفلت کرتے ہیں اس تکبیر کو پڑھتے نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں حالانکہ ان کا درمیانہ طریقہ میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے ۔
فائدہ: ذوالحجہ کی گیارویں،باہرویں ،تیرہویں ، تاریخ کو ایام تشریق کہتے ہیں تکبیرات تشریق یہ ہیں :
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبر وللہ الحمد
1)) نماز جنازہ اور وتروں اور سنتوں کے بعد یہ تکبیرات نہ کہیں۔
2)) تکبیر ات تشریق امام، مقتدی، منفرد ،عورت، مرد، مسافر، مقیم، شہر والوں اور دیہات والوں سب پر واجب ہے ۔
((3 جن دنوں میں یہ تکبیر ات کہی جاتی ہیں اگر ان دنوں کی کوئی نماز رہ گئی ہو اور اب اگر اس کی قضاء اسی سال کے انہی دنوں میں کی جائے تب تو یہ تکبیرات کہی جائیں گی ورنہ نہیں مثلاً: نویں تاریخ کی نماز کی قضاء اسی سال کی دسویں کو کی جائے تو تکبیر بھی نماز کے بعد کہی جائے اور اگر اس کی قضاء ان دنوں کے گزرنے کے بعد یا اگلے سال کے انہی دنوں میں کی جائے اسی طرح ان دنوںسے پہلے کی نماز اگر ان دنوں میں پڑھے تو یہ تکبیرات نہ پڑھے۔
4)) مسبوق یعنی جس کی رکعات رہ گئی ہووہ بھی اپنی رکعات پوری کرنے کے بعد یہ تکبیر کہے گا۔ لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ ہی تکبیر تشریق کہہ لی تو بھی نماز ہو گئی اور لاحق جس کی رکعت امام کی اقتداء کرنے کے بعد رہ گئی ہو اس پر بھی یہ تکبیر واجب ہے۔
((5 نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جب تک قبلہ سے سینہ نہ پھیرا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے نماز کی بنا ممنوع ہو جا تی ہے اس وقت تک یہ تکبیر کہنا ضروری ہے۔
(6) نماز کے سلام کے بعد اگر کسی نے قہقہہ لگا دیا یا عمداً حدث کیا یا کلام کیا تو اب یہ تکبیرات نہیں کہہ سکتا البتہ اگر سلام کے بعد خود بخود حدث ہو گیا تو یہ تکبیرات کہہ لے کیونکہ ان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مقدس فرائض کی ادائیگی مکمل حقوق کی رعایت کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں

tadrees ul islam

tadrees ul islam

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.